ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ
ہتکھنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبے جامۂ احرام کے
دل کو آنکھوں نے پھنسایا کیا مگر
یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دام کے
شاہ کے ہے غسل صحت کی خبر
دیکھیے کب دن پھریں حمام کے
عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

مرزا غالب

Comments