رستے کئی نکل پڑے منزل کے بعد بھی

رستے کئی نکل پڑے، منزل کے بعد بھی
لاحاصلی کی گرد ہے، حاصل کی بعد بھی

کتنے چراغ جلتے رہے ، کتنے بجھ گئے
محفل کا رنگ رہتا ہے محفل کے بعد بھی

اِک دل تھا، اُس کی نذر کیا میں نے اور اب
مجھ میں دھڑک رہا ہے کوئی دل کے بعد بھی

حیرت ہے کیسے اپنے موقف پر ڈٹ گیا
وہ انکشافِ نیتِ قاتل کے بعد بھی

قدموں سے آ کے ریت لپٹتی رہی سلیم
اِک لہر ڈُھونڈتی رہی ساحل کے بعد بھی

سلیم کوثر

Comments