صوفیٔ شہر مرے حق میں دعا کیا کرتا

صوفیٔ شہر مرے حق میں دعا کیا کرتا
خود تھا محتاج عطا مجھ کو عطا کیا کرتا
اپنی آواز کے سناٹے سے ہول آتا ہے
میں بیابان تمنا میں صدا کیا کرتا
سانس لیتے ہوئے سینے میں جلن ہوتی ہے
میں ترے شہر کی شاداب فضا کیا کرتا
اس فضا میں تو فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں
میں یہاں جرأت پرواز بھلا کیا کرتا
محتسب جرم مرا دیکھ کے خاموش رہا
خود خطا کار تھا احکام سزا کیا کرتا
تم نے تو چھین لی مجھ سے مری گویائی بھی
میں تو اک کاغذ آتش زدہ تھا کیا کرتا

محسن احسان

Comments