کیا نمو کار ہے کیا اجر نمو مانگتا ہے

کیا نمو کار ہے کیا اجرِ  نمو مانگتا ہے
ریت کی تہ میں جو پانی ہے لہو مانگتا ہے
ایک دھڑکن کرے کس کس کے لئے مزدوری
دل وہ آزاد کہ اک طوقِ  گلو مانگتا ہے
پوچھتا ہے ترا اک دوست ترے بارے میں
ایسے جیسے کوئی تفصیلِ عدو مانگتا ہے
میر _ مے خانہ کے اٹھتے ہی یہ نوبت آئ
جام تک جس کو نہ ملتا تھا سبو مانگتا ہے
میں وہ خود سوز وہ خود سر ہوں کہ جس کے ڈر سے
وقت بھی چاک بہ چاک ازنِ رفو مانگتا ہے
جانے کس کرب سے گزرا ہے کہ تیرا شاعر
داد میں شور نہیں عالم  ہو مانگتا ہے
کیا کہوں قرب کی یہ کون سی منزل ہے جہاں
نہ میں دیتا ہوں تجھے وقت نہ تو مانگتا ہے
دل سے گزری ہیں وہ کم ظرف بہاریں شاہد
باغِ احساس نہ اب رنگ نہ بو مانگتا ہے

شاہد زکی

Comments

Post a Comment