Posts

Showing posts from August, 2019

نہ شوق ہے  نہ تمنا نہ یاد ہے  دل میں

الجھن

چشم ساقی کے اشارات کی باتیں چھیڑو

چاندنی رات میں ہوا کا جھونکا ٹکرایا چوباروں سے

کہاں آیا ہے دیوانوں کو تیرا کچھ قرار اب تک

جانے گھر سے کوئی گیا ہے گھر سونا سونا لگتا ہے

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی

کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے

ابر کوہسار

نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے

جرأت سے ہر نتیجے کی پروا کیے بغیر

اب درد محبت مری رگ رگ میں رواں ہے

یہ دو طرفہ محبت اور خود داری کا موسم ہے

نہ کوئی رابطہ مسیج نہ کال خیر تو ہے

مٹی وچ وی ہمت ڈھالی جاندی نئیں

امید دید دوست کی دنیا بسا کے ہم

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے

زمانے بھر کی گردشوں کو رام کر کے چھوڑ دوں

کوئی لہجہ ، کوئی جملہ ، کوئی چہرا نکل آیا

شام غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں

روئے تاباں مانگ موئے سر دھواں بتی چراغ

میں گلہ اگر کروں گا اسے ناروا کہو گے

دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے

آباد جتنے لوگ تھے بے گھر لگے مجھے

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے

میں کہ آشفتہ و رسوا سر بازار ہوا

ہر مرحلہ شوق سے لہرا کے گزر جا

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ

راحت وصل بنا ہجر کی شدت کے بغیر

فاصلے نہ بڑھ جائیں فاصلے گھٹانے سے

طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے 

کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا

ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے

اگر یوں ہی دل یہ ستاتا رہے گا

بھولی بھالی نسل

غلط ہے شیخ کی ضد ساقی محفل سے ٹوٹے گی

مرے مرشد کہا کرتے تھے سب اچھا نہيں ہوتا

یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا

سر راہ عدم گور غریباں طرفہ بستی ہے

ایک درخواست

جو اترا سو ڈوب گیا جو ڈوبا اس پار