نہ کوئی رابطہ مسیج نہ کال خیر تو ہے

نہ کوئی رابطہ  مسیج نہ کال خیر تو ہے
کہاں پہ گُم ہو مرے خوش جمال  خیر تو ہے



ابھی تو عمر نہيں تھی تمھارے جَھڑنے کی
ابھی سے ڈھلنے لگے خدوخال ، خیر تو ہے

مری تو خیر ہے تم کیوں اُٹھائے پھرتے ہو
کسی کا ہجر ، کسی کا وصال خیر تو ہے

ہمیں تو اِک بھی میسر نہيں تھا صحرا میں
تمھارے شہر میں اِتنے غزال خیر تو ہے

وہ جن کے دَم سے چمکتا تھا آسمان ِ سُخَن
کہاں گئے وہ ستارہ مثال ، خیر تو ہے

اور اِتنی دیر میں آنکھیں چَھلک پڑیں اُس کی
میں پوچھنے ہی لگا تھا سوال، خیر تو ہے

تُو بات بات پہ کہتا تھا تیری خیر نہيں
کہاں گیا ترا جاہ و جلال خیر تو ہے

فقیر موج میں آئے نہيں کئی دن سے
اور اُس پہ رقص ‘ نہ کوئی دھمال ، خیر تو ہے

ہمارے ہوتے ہوئے اُس پہ اِن دنوں عامی
یہ کون پھینکتا پھرتا ہے جال ، خیر تو ہے
عمران عامی

Comments