غم کی خلش بھی رہتی ہے شاید خوشی کے ساتھ

غم کی خلش بھی رہتی ہے شاید خوشی کے ساتھ
آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اکثر ہنسی کے ساتھ



ظاہر ہے التفاتِ نظر بے رُخی کے ساتھ
لہجے میں ان کے پیار بھی ہے برہمی کے ساتھ

یہ بارگاہِ حُسن ہے اے چشمِ شوق دیکھ
لازم ہے احترام بھی وارفتگی کے ساتھ
آیا کبھی نہ رازِ محبت زبان تک
اتنا ہے مجھ کو ہوش بھی دیوانگی کے ساتھ

غنچے جو ہیں اُداس تو بے رنگ پھول ہیں
رخصت ہوئی بہار بھی شاید کسی کے ساتھ

طے ہوتے مرحلے نہ کبھی راہِ شوق کے
دیوانگی نہ ہوتی اگر آگہی کے ساتھ

ہر گام رہزنوں سے پڑا سابقہ مجھے
جب راستہ چلا ہوں کبھی راستی کے ساتھ

اخترؔ کہوں نہ شعر تو گُھٹ جائے دم مرا
وابستہ زندگی ہے مری شاعری کے ساتھ
اختر مسلمی

Comments