کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح

یہ زندگی کہ جس کا کوئی اُور ہے نہ چھور
ہم سب میں بٹ گئی ہے کرامات کی طرح

یہ دور ، شکر ہے کہ بڑی مدتوں کے بعد
الجھا ہوا ہے میرے خیالات کی طرح

ارمان یوں تو دل کے نکلتے ہیں دوستو
لیکن کسی غریب کی بارات کی طرح

میرے ہی شعر مجھ کو لگے ہیں بصد خلوص
کچھ بے تکے عجیب سوالات کی طرح

مرنے کے بعد خواب میں آتے ہیں کس لیے
ماں باپ بد نصیب علامات کی طرح

حیرت ہے اپنے گھر کے بھی حالات ارتضیٰ
نازک بہت ہیں ، ملک کے حالات کی طرح
ارتضیٰ نشاط

Comments