یہیں نشست ملی روز اولیں سے مجھے

یہیں نشست ملی روزِ اولیں سے مجھے
زمیں پہ حق ہے مرا مت اٹھا زمیں سے مجھے
بوقتِ دفن یہ شجرہ طلب نہیں کرتی
اسی لئے کوئ شکوہ نہیں زمیں سے مجھے
یہ شہرِ حُسن مری سجدہ گاہ یونہی نہیں
کوئ نگینہ ملا تھا یہیں کہیں سے مجھے
میں جس کو ڈھونڈنے مسجد میں جایا کرتا تھا
وہ دوست آج ملا میری آستیں سے مجھے
اسی بنا پہ میں خوشبو کو چھو بھی سکتا ہوں
وہ چہرہ یاد ہے اب بھی کہیں کہیں سے مجھے
لبوں کو اپنی غریبی عزیز تھی ورنہ
کئی پیام ملے تھے تری جبیں سے مجھے
راکب مختار

Comments