کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا

کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا
وہ ساتھ ہو تو سفر کا پتہ نہیں چلتا



وہی ہوا کہ میں آنکھوں میں اس کی ڈوب گیا
وہ کہہ رہا تھا بھنور کا پتہ نہیں چلتا

الجھ کے رہ گیا سیلاب قریۂ دل سے
نہیں تو دیدۂ تر کا پتہ نہیں چلتا

اسے بھی کھڑکیاں کھولے زمانہ بیت گیا
مجھے بھی شام و سحر کا پتہ نہیں چلتا

یہ منصبوں کا علاقہ ہے اس لئے شائد
کسی کے نام سے گھر کا پتہ نہیں چلتا
منور رانا

Comments