ایک سوال

ایک سوال

دیکھ مسیحا میرے لب پر کب سے ایک سوال
کیسے چھیلوں اپنی آنکھ سے میں اس غم کی چھال
ایک پرندہ قید میں ہے اک مدت سے بے حال
اندر ہجر کا موسم ہے اور باہر وصل کا جال
جنم جنم کے بچھڑے چل کر ایک نکالیں فال
کتنے موسم باقی ہیں اور کتنے ماہ و سال
کتنے آنسو تیری ہیں اور کتنے میرے باقی
اور کہاں تک پھیلا ہے یہ دکھ کا اک جنجال
حدِ نظر تک تاریکی میں درد بھرا ہے راگ
اور اس راگ نے چھینے مجھ سے جیون کے سُر تال
اک چڑیا کُرلاتی تھی بس تنہا پنجرے بیچ
اور باہر کوئی پھول اٹھائے پوچھ رہا تھا حال
ہجر کی تاریکی خوشیوں پر روز کرے اب وار
آج مسیحا لے کر آجا کرنوں کی تو ڈھال
دکھ یہ کیسا ، جس سے میری آنکھیں اب ویران
اور ویرانی میں گزرے ہیں بس یہ ہجر کے سال
نجمہ شاہین

Comments