ہوئی جو ہم پہ عنایت سنبھال رکھی ہے

ہوئی جو ہم پہ عنایت سنبھال رکھی ہے
بڑے جتن سے یہ تہمت سنبھال رکھی ہے
ہمیں غریب نہ سمجھو بہت امیر ہیں ہم
تمہارے درد کی دولت سنبھال رکھی ہے
کوئی ملال نہ شکوہ دعائیں سب کے لیے
یہ خاندانی روایت سنبھال رکھی ہے
مرا یہ جسم تو ہے سرکشی پہ آمادہ
فصیلِ جاں نے بغاوت سنبھال رکھی ہے
تری کشش ترے گیسو ترے لب و رخسار
ہمیں نے ایسی قیامت سنبھال رکھی ہے
کبھی جو سرد سا موسم بہت ستائے تو
ترے بدن کی حرارت سنبھال رکھی ہے
عرفان جعفری

Comments