زمانے بھر کی گردشوں کو رام کر کے چھوڑ دوں

زمانے بھر کی گردشوں کو رام کر کے چھوڑ دوں
میں چاہوں جب بھی ہر خوشی کو عام کر کے چھوڑ دوں
یہ عشق تو نہیں کہ عمر بھر کو تھام لوں اسے
میں ہاتھ تیرا سرسری سلام کر کے چھوڑ دوں
وہ یاد جس کی بے خودی میں علم ہی نہ ہو سکے
میں کتنے سارے کام ایک کام کر کے چھوڑ دوں
میں تاج و تخت ، سلطنت سے ماورا ہوں یار _ من
یونہی کھڑے کھڑے یہ تیرے نام کر کے چھوڑ دوں
رکی رہوں تو اس جمود سے بھی اوب جاؤں میں
سفر کروں تو وہ بھی چند گام کر کے چھوڑ دوں



 ترے غرور کی بساط میرے سامنے ہے یہ
میں تیرے جیسے سینکڑوں غلام کر کے چھوڑ دوں
کومل جوئیہ

Comments