دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے

دل میں رکھتا ہے نہ پلکوں پہ بٹھاتا ہے مجھے
پھر بھی اس شخص میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے
ساری آوازوں کو سناٹے نگل جائیں گے
کب سے رہ رہ کے یہی خوف ستاتا ہے مجھے
یہ الگ بات کہ دن میں مجھے رکھتا ہے نڈھال
رات کی زد سے تو سورج ہی بچاتا ہے مجھے
اک نئے قہر کے امکان سے بوجھل ہے فضا
آسماں دھند میں لپٹا نظر آتا ہے مجھے
تذکرہ اتنا ہوا روح کی آلودگی کا
جسم صد چاک بھی آئینہ دکھاتا ہے مجھے
شہریار

Comments