رہا نہ ضبط غم دل اگر تو کیا ہوگا

رہا نہ ضبطِ غمِ دل اگر تو کیا ہوگا
نہ آہ کا بھی ہوا کچھ اثر تو کیا ہوگا

نہ دیکھ یوں نگہ التفات سے اے دوست
یہ کر گئی جو کہیں دل میں گھر تو کیا ہوگا

یہ تارِ اشکِ مسلسل یہ آہ نیم شبی!
کسی کو ہوگئی اس کی خبر تو کیا ہوگا

متاعِ قلب و نظر جھک کے لوٹ لی اس نے
جو اُٹھ گئی نگہہ فتنہ گر تو کیا ہوگا

مرا نہیں نہ سہی تیرا اختیار تو ہے
رہا نہ دل پہ ترا بھی اثر تو کیا ہوگا

یہ تیری یاد کی محویّتیں ارے توبہ
تو آئے، پھر بھی رہوں بے خبر تو کیا ہوگا

ابھی تو ہیں مہ و انجم ہی زد میں انساں کی
یہ بے خبر، جو ہوا باخبر تو کیا ہوگا

سجی ہے گوہرِ فن سے مری غزل اخترؔ
نہ دے گا داد کوئی کم نظر تو کیا ہوگا

اختر مسلمی

Comments