ہم کہانی سے کوچ کر جائیں

ہم کہانی سے کوچ کر جائیں؟
دارِ فانی سے کوچ کر جائیں ؟

شاہ زادی کی نظریں کہہ رہی ہیں
راجدھانی سے کوچ کر جائیں

اپنی ناکام حسرتوں سے ہم
کامرانی سے کوچ کر جائیں

ہم نے سوچا ہے زندگی کے لیے
زندگانی سے کوچ کر جائیں

ایک دنیا نئی بسائیں ہم
چل پرانی سے کوچ کر جائیں

رکتے رکتے بھی ہم کہیں نہ رکیں
بس روانی سے کوچ کر جائیں

اس نے چاہا کہ خط جلا دے، ہم
ہر نشانی سے کوچ کر جائیں

ہم میسر نہیں ہیں خود کو بھی
اس گرانی سے کوچ کر جائیں

ایک طوفاں ڈرا رہا ہے ہمیں
ڈر کے ، پانی سے ، کوچ کر جائیں ؟

تنگ آکر تری محبت میں
بے ایمانی سے کوچ کر جائیں

وصل اول بلا رہا ہے ہمیں
ہجر ِ ثانی سے کوچ کر جائیں

زبیر قیصر

Comments