آباد جتنے لوگ تھے بے گھر لگے مجھے

آباد جتنے لوگ تھے بے گھر لگے مجھے

آنکھیں کھنڈر تو ذہن بھی بنجر لگے مجھے

پھیلا ہے میرے  چاروں طرف روشنی کا زہر

سورج کی ہر کرن بھی تو نشتر لگے مجھے

زلفوں میں جن کی میں نے سجائے لہو کے پھول

یارو انہیں کے ہاتھ سے پتھر لگے مجھے

آیا نہ راس خواب میں شوقِ شناوری

آنکھیں کھلیں تو خشک سمندر لگے مجھے

شب خوں خود اپنی ذات پہ مارا ہے دوستو

اکثر خود اپنے ہاتھ سے خنجر لگے مجھے

سایہ زمیں پہ رہ گیا اور جسم اڑ گیا

کل رات تیری یاد میں وہ پر لگے مجھے

جب نازؔ اپنے زیست کا میں تجزیہ کروں

ہر شخص اپنے آپ سے بہتر لگے مجھے

ناز خیالوی

Comments