ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
میں رہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اُس کے پیام دل کے سوا کون لا سکے
غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زنہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے
یارب یہ کیسا ظلم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جاسکے
گو بحث کرکے بات بٹھائی تو کیا حصول
دل سے اٹھا خلاف اگر تو اٹھا سکے
اطفائے نارِ عشق نہ ہو آب اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
مستِ شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے درد چاہے لائے بخود پھر نہ لا سکے

خواجہ میر درد

Comments