نا امید آنکھوں میں خوابوں کا سفر جاری رہا

نا امید آنکھوں میں خوابوں کا سفر جاری رہا

ریگزاروں میں سرابوں کا سفر جاری رہا

میرے ارمانوں کی قسمت میں رہی آوارگی

رات دن خانہ خرابوں کا سفر جاری رہا

گو زمیں نے راستہ ان کا سدا روکا مگر

آفتابوں، ماہتابوں کا سفر جاری رہا

بارہا موجوں کے ہاتھوں ٹوٹنے کے باوجود

سطحِ دریا پر حبابوں کا سفر جاری رہا

آیتوں کی شکل میں چہروں کی صورت میں کبھی

آسمانوں سے کتابوں کا سفر جاری رہا

ایک برگِ گل بھی اب ان کے مزاروں پر نہیں

جن کے قدموں تک گلابوں کا سفر جاری رہا

کبر و نازِ حسن سے عجزِ محبت کی طرف

ہر زمانے میں عتابوں کا سفر جاری رہا
ناز خیالوی

Comments