Posts

Showing posts from February, 2019

تیرے لب دیکھنے کی عادت ہے

تو جو غریب عشق ہے تو جو غبار عشق ہے

بہت داس ہوئے پھول بیچنے والے​

ہر رات خیالوں میں پہنچتا ہوں مدینے

یہ ہے اصحاب محمد کے غلاموں کا غلام

بے حقیقت دوریوں کی داستاں ہوتی گئی

یہ جو لاہور سے محبت ہے

کار بیکار سے محبت کی

اک دن زباں سکوت کی پوری بناؤں گا

کلکتے کا نہ ذکر کروں گا میں ہم نشیں

گھر بہ آتش ہے ضیا بار سمجھ لیتے ہیں

عکس کی صورت دکھا کر آپ کا ثانی مجھے

ہمیشہ ہوتا ہے عزت اور احترام سے کام

گرچہ مہنگا ہے مذہب خدا مفت ہے

بارش میرے رب کی ایسی نعمت ہے

آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے

بے گانگی کا ابر گراں بار کھل گیا

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا

کوئی امید بر نہیں آتی

عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

ان گیسوؤں میں شانۂ ارماں نہ کیجئے

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے

یہ اختلاف ہے اور خامشی سے ہوتا ہے

کوئی صورت بھی نکالا کرو خوش رہنے کی

نظر انداز ہونے سے بہت تکلیف ہوتی ہے

جیسے مکان ہو در دیوار کے بغیر

جوش پر تھیں صفت ابر بہاری آنکھیں

سینہ مدفن بن جاتا ہے جیتے جاگتے رازوں کا

فقیر موجی خراب حالوں کا کیا بنے گا

لفظ انمول پر اشعار

ﺗﮍﭘﺎ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁ ﮔﺌﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ

یہ اور بات ہے کہ مداوائے غم نہ تھا

ورنہ زخمی کوئی رہگیر نہیں ہو سکتا

اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور

اے درد عشق تجھ سے مکرنے لگا ہوں میں

بجھ گئی ریت بھی وحشت بھی اٹھا لی گئی ہے

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے