اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور

اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور
اس کوئے ملامت میں گزرتے کوئی دن اور
راتوں کو تیری یادوں کے خورشید اُبھرتے
آنکھوں میں ستارے سے اترتے کوئی دن اور
ہم نے تجھے دیکھا تو کسی کو بھی نہ دیکھا
اے کاش تیرے بعد گزرتے کوئی دن  اور
راحت تھی بہت رنج میں ہم غم طَلبوں کو
تم اور بگڑتے تو سنورتے کوئی دن  اور
گو ترکِ تعلّق تھا مگر جاں پہ بنی تھی!
مرتے جو تجھے یاد نہ کرتے کوئی دن اور
اس شہرِ تمنّا میں فراز آئے ہی کیوں تھے
یہ حال  اگر تھا تو ٹھہرتے کوئی دن اور
احمد فراز

Comments