کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کیا
کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کیا
بڑے تپاک سے غم نے مجھے سلام کیا
ہزار ترکِ تعلّق کا اہتمام کیا
مگر جہاں وہ مِلے، دل نے اپنا کام کیا
زمانے والوں کے ڈر سے اُٹھا نہ ہاتھ، مگر
نظر سے اُس نے بصدِ معزرت سلام کیا
کبھی ہنسے، کبھی آہیں بھریں، کبھی روئے
بقدرِ مرتبہ ہر غم کا احترام کیا
ہمارے حصّے کی مے کام آئے پیاسوں کے
زہ راہِ خیر ! گناہِ شکستِ جام کیا
طُلوعِ مہْر سے بھی گھر کی تِیرَگی نہ گھٹی
اِک اور شب کٹی یا میں نے دِن تمام کیا
دعا یہ ہے، نہ ہُوں گُمراہ ہمسفر میرے
خُمار میں نے تو اپنا سفر تمام کیا
خُمار بارہ بنکوی
Comments
Post a Comment