یہ چاندنی بھی جن کو چھوتے ہوئے ڈرتی ہے

یہ چاندنی بھی جن کو چھوتے ہوئے ڈرتی ہے
دنیا انہی پھولوں کو پیروں سے مسلتی ہے

شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشہ ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ سکتی ہے

لوبان میں چنگاری جیسے کوئی رکھ جائے
یوں یاد تری شب پھر سینے میں سلگتی ہے

آ جاتا ہے خود کھینچ کر دل سینے سے پٹڑی پر
جب رات کی سرحد سے اک ریل گزرتی ہے

آنسو کھبی پلکوں پر تادیر نہیں رکتے
اڑ جاتے ہیں یہ پنچھی جب شاخ لچکتی ہے

خوش رنگ پرندوں کے لوٹ آنے کے دن آئے
بچھڑے ہوئے ملتے ہیں جب برف پگھلتی ہے

*ڈاکٹر بشیر بدر*

Comments