اس طرح انتظار ترا کر رہا ہوں میں

اِس طرح اِنتظار ترا کر رہا ہوں میں
بچپن سے پنچھیوں کو رہا کر رہا  ہوں میں
میں جانتا ہوں پہلی ضرورت ہے میری کیا
پیڑوں کو اپنے ساتھ بڑا کر رہا ہوں  میں
لکھا جو تیرا نام کوئی بیل بن گئی
آ جائیں اُس پہ پھول دُعا کر رہا ہوں  میں
جیسے کہ پیار کرنا کوئی کام ہی نہ ہو
سب پوچھتے ہیں اِن دنوں کیا کر رہا ہوں میں
اِک پھول مارنا تھا مگر دِل کا کیا کروں
اِس بار بھی نشانہ خطا کر رہا ہوں  میں
اُس کے بدن کو اور بھی نیلا کیا حسنؔ
آنکھوں کا رنگ اور ہرا کر رہا ہوں  میں
حسنؔ عباسی

Comments