مری آنکھوں سے بہنا چاہیے دل کا لہو برسوں

مِری آنکھوں سے بہنا چاہیے دِل کا لہو برسوں
رہی ہے اُن کو خونِ آرزو کی آرزو برسوں
جئے جانے کی تہمت کِس سے اُٹھتی ، کِس طرح اُٹھتی
تِرے غم نے بچائی زندگی کی آبرو برسوں
نِگاہوں نے دِلوں میں، دِل نے آنکھوں میں تجھے ڈُھونڈا
تِری دھُن میں رہے سودائیانِ جستجُو برسوں
بقابِ جلوہ کی کایا پلٹ دی شوقِ بیحد نے
مِری وحشت نے توڑا ہے طلِسمِ رنگ و بو برسوں
تری ایذا پسندی کی ادا بھی کیا قیامت ہے
مجھے مرنے نہ دے گی، آرزوئے مرگِ تُو برسوں
ہماری بےکسی کی موت بدلا تھی اسیری کا
رہا طوقِ اسیری بھی گرفتارِ گُلو برسوں
کیے جائیں گے دِل کے خاتمے پر شکر کے سجدے
وفاؤں نے کیا ہے خونِ حسرت سے وضو برسوں
نہ چھیڑ اے نامرادی خستہٗ اُمیدِ باطِل ہوں
رہا ہے چاکِ دِل آزردہٗ مشقِ رفو برسوں
تجھے اور حالِ دِل سے یہ تجاہل توبہ کر توبہ
کہ تُجھ سے میری خاموشی نے کی ہے گفتگو برسوں
مری اِک عمر فانیؔ نزع کے عالم میں گزری ہے
محبت نے مِری رگ رگ سے کھینچا ہے لُہو برسوں
فانی بدایونی

Comments