جیسے مکان ہو در دیوار کے بغیر

جیسے مکان ہو در دیوار کے بغیر
تو خود بتا کہ عشق ہے اظہار کے بغیر

کتنے بہت سے خواب ہیں پہلے کے ہی سہی
مر تو نہیں گئی نا میں دو چار کے بغیر

میں چاہتی ہوں دل سے ہر نسبت نکال دوں
میں جینا چاہتی ہوں ہر آزار کے بغیر

یوں لگ رہا ہے زندگی اک دائرے میں ہے
اور دائرہ بھی وہ جو ہے پرکار کے بغیر

جوتش بتا کہ ہاتھ میں ایسی لکیر ہے ؟
وہ شخص میرا ہو بھی ، ہو انکار کے بغیر

خوشبو بغیر جس طرح کاغذ کا پھول ہے
عورت حسین ، کچھ نہیں کردار کے بغیر

کومل جوئیہ

Comments