ہمیشہ ہوتا ہے عزت اور احترام سے کام

ہمیشہ ہوتا ہے، عزت اور احترام سے کام
جہاں بھی جاؤں، چلاتا ہوں اس کے نام سے کام
مجھ ایسا سست، تھکن کا شکار کیسے نہ ہو؟
پڑا ہوا ہے تجھ ایسے سبک خرام سے کام
ہم اہلِ گریہ، ستارے، چراغ، خوف، سکوت
شروع کرتے ہیں سب ایک ساتھ، شام سے، کام
جبھی تو سیکھی، ریاضت سے، خامشی کی زباں
کسی کے سامنے چلتا نہ تھا کلام سے کام
یہ نام، منصب و دولت، تمہیں مبارک ہوں
میں کب کا چھوڑ چکا ہوں یہ سارے عام سے کام
پھر اہلِ عقل، جنوں پر سوال اٹھانے لگے
وگرنہ رکھتے تھے ہم لوگ اپنے کام سے کام
وہ شاہ جس کا نہیں کوئی کام سہل، اسے
خدانخواستہ پڑ جائے مجھ غلام سے کام
یہ ہے جنون کا دفتر، قطار میں لگ جائیں
یہاں نہ ہوگا سفارش سے اور دام سے کام
میں کاروباری گھرانے کا فرد ہوں، نجمی
سو بھانپ لیتا ہوں طرزِدعا سلام سے کام

عمیر نجمی

Comments