دوستی کے لہجے میں دشمنی نے ماراہے

دوستی کے لہجے میں دشمنی نے ماراہے
دکھ تو یہ ہے ہم کو بس اک خوشی نے ماراہے

تیرگی کا ہم کریں اب گلہ بھلا کیسے
ہم کو چاند راتوں میں چاندنی نے مارا ہے

دردِ نا رسائی اب ہم کو کیسے مارے گا
الوداعی لمحوں کی بے بسی نے مارا ہے

دوش کیا رقیبوں کو آج دیں کہ ہم کو تو
اپنی ہی محبت کی بے حسی نے مارا ہے

شہر میں جو رہتا تھا اجنبی سا دیوانہ
سب کو علم ہے اس کو آگہی نے مارا ہے

آرزو شکستہ ہے ، دل اداس رہتاہے
بس تمہاری یادوں سے دوستی نے مارا ہے

ہر قدم پہ اپنی یہ زندگی سلگتی ہے
شہر یہ جفا کا تھا ، مخلصی نے مارا ہے

ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

Comments