گرچہ مہنگا ہے مذہب خدا مفت ہے

گرچہ مہنگا ہے مذہب خدا مفت ہے
اک خریدو گے تو دُوسرا مُفت ہے
کیوں الجھتے ہو ساقی سے قیمت پہ تم
دام تو جام کے ہیں، نشہ مُفت ہے
آئنوں کی دُکاں میں لکھا تھا کہیں
آپ اندھے ھیں تو آئنہ مُفت ہے
اُس نے پُوچھا کہ پازیب کتنے کی ہے
سارا بازار چِلّا اُٹھا: مُفت ہے
آخری سانس کے بعد عُقدہ کُھلا
مَیں سمجھتا رھا تھا ہوا مُفت ہے
فیصلہ کیجیے، بھاؤ تاؤ نہیں
یا محبت ہے انمول یا مُفت ہے
دُوسرا جان دے کے بھی مِلتا نہیں
عشق کی ڈور کا اک سِرا مُفت ہے
رحمان فارس

Comments