عشق میں جاں سے گزرے ہیں گزرنے والے

عشق میں جاں سے گزرے ہیں گزرنے والے
موت کی راہ نہیں دیکھتے، مرنے والے
آخری وقت بھی پُورا نہ کِیا وعدۂ وصل
آپ آتے ہی رہے، مر گئے مرنے والے
اُٹھے اور کوچۂ محبوب میں پہنچے عاشق
یہ مسافر نہیں رستے میں ٹھہرنے والے
جان دینے کا کہا میں نے، تو ہنس کر بولے
تم سلامت رہو، ہر روز کے مرنے والے
آسماں پہ جو سِتارے نظر آئے، تو امیر
یاد آئے مجھے داغ اپنے اُبھرنے والے

امیر مینائی

Comments