حسن اکبر ، نظم

کوئی خوشبو جیسی بات کرو ، کوئی بات کرو
بارش نے دریچے پہ آکےدستک دی ہے ہر سُو بھیگے پیڑوں کی خوشبو پھیلی ہے
تم کوئی انوکھی بات کرو ، کوئی بات کرو
ہے سونا بن کے پھیلی دھوپ نظاروں پر وہ چاندی جیسی برف جمی کوہساروں پر
تم کوئی سُہانی بات کرو ، کوئی بات کرو
ساحل پہ کہیں جب لہریں جھاگ اڑاتی ہوں جب رنگیں بہاریں پھولوں کو لہراتی ہوں
کوئی میٹھی پیاری بات کرو ، کوئی بات کرو
پھیلی ہو فضا میں خون کی بو ، بارود کی بو لوگ اپنے پرائے غم میں بہاتے ہوں آنسو
دل تھامنے والی بات کرو ، کوئی بات کرو

حسن اکبر

Comments