ہم ایک عمر جلے، شمع رہ گزر کی طرح

ہم ایک عمر جلے، شمع رہ گزر کی طرح
اُجالا غیروں سے کیا مانگتے، قمر کی طرح
کہاں کے جیب و گریباں، جِگر بھی چاک ہُوئے
بہار آئی، قیامت کے نامہ بر کی طرح
کَرَم کہو کہ سِتم، دِل دہی کا ہر انداز
اُتر اُتر سا گیا دِل میں نیشتر کی طرح
نہ حادثوں کی کمی ہے، نہ شَورَشوں کی کمی
چَمن میں برق بھی پلتی ہے بال و پر کی طرح
نہ جانے کیوں یہاں وِیرانیاں بَرستی ہیں
سَبھی کے گھر،  ہیں بظاہر ہمارے گھر کی طرح
خُدا کرے، کہ سدا کاروبارِ شَوق چَلے
جو بے نیاز ہو منزِل سے اِس سفر کی طرح
بَس اور کیا کَہَیں رُودادِ زِندگی، تاباںؔ
چَمن میں ہم بھی ہیں اِک شاخِ بے ثَمر کی طرح
غلام ربانی تاباںؔ

Comments