کلکتے کا نہ ذکر کروں گا میں ہم نشیں

کلکتے کا نہ ذکر کروں گا میں ہم نشیں
میں نے وہاں وہ وقت گزارا کہ ہائے ہائے

بچپن میں اک تعلقِ خاطر کسی سے تھا
وہ سادگی وہ روئے دلِ آرا کہ ہائے ہائے

سولہ برس کے بعد عجب اتفاق سے
ملنا ہوا وہ اس سے دوبارہ کہ ہائے ہائے

اِک اِک ادا نے عمر کے دھندلے نقوش کو
ایسے تڑپ تڑپ کے ابھارا کہ ہائے ہائے

آبِ رواں میں ابھرا ہوا مخملیں بدن
شبنم کی اوڑھنی کا سہارا کہ ہائے ہائے

رخسارِ زرد، بجھتی ہوئی روح کے نشاں
آنکھوں میں کش مکش کا نظارہ کہ ہائے ہائے

ہاتھوں میں اور گلے میں وہ گجرے گُلاب کے
اور سانولا سا رنگ وہ پیارا کہ ہائے ہائے

رہنا الگ الگ مگر اِک اِک نگاہ میں
کن کن محبتوں کا اشارہ کہ ہائے ہائے

سادہ سا کوئی شعر بھی پڑھ دوں تو کس طرح
کرنا بہ اضطراب گوارہ کہ ہائے ہائے

ہاں یہ وہی تھی جس نے سرِ راہ دیکھ کر
وہ بے حجاب مجھ کو پکارا کہ ہائے ہائے

اور اب دوبارہ مل کے بھی دھندلا گئی وہ یاد
کیا چیز ہے یہ وقت کا دھارا کہ ہائے ہائے

کلکتہ، 1957ء

(جمیل الدین عالیؔ)​

Comments