ہم کو آغاز سفر مارتا ہے

ہم کو آغازِ سفر مارتا ہے
مرتا کوئی نہیں ڈر مارتا ہے

زندگی ہے مری مشکل میں پڑی
عشق مجھ کو بے خبر مارتا ہے

تری مجھ سے نہیں قربت نہ سہی
مجھ کو تو حسن ِ نظر مارتا ہے

زندگی اس کی ہے محتاج مگر
دے بھی سکتا ہے مگر مارتا ہے

اک ہنسی گونجی تھی گھر میں مرے
مجھ کو یادوں کا اثر مارتا ہے

خواب اتنے کہ دہائی عنبر
پھر ان کا زیر و زبر مارتا ہے

نادیہ عنبر لودھی

Comments