بہت داس ہوئے پھول بیچنے والے​

بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص​
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تری گلی والے​

بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے​
وہ میرے یار مِرے قہقہوں کے متوالے​

اگر وہ جان کے درپے ہیں اب تو کیا شکوہ​
وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے​

مقدروں کی لکیروں سے مات کھا ہی گئے​
ہم ایک دوسرے کا ہاتھ چومنے والے​

اُسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا​
بہت اُداس ہوئے پھول بیچنے والے​

جمالؔ احسانی​

Comments