جن کی خاطر رہےاپنوں سے پرائے برسوں

جن کی خاطر رہے اپنوں سے پرائے برسوں
کام کاغذ کے وہ ٹکڑے بھی نہ آئے برسوں

اب وہ خوشبو کا بھی حقدار نہیں ہے یارو
جس نے باغات گلابوں کے لگائے برسوں

آج سائے میں درختوں کے وہی بیٹھا ہے
کاٹ کر پیڑ یہاں جس نے لگائے برسوں

سر چھپانے کو ضروری تھے مکاں مٹی کے
ہم نے کاغذ کے مکانات بنائے برسوں

میں دعاؤں میں اسے یاد سدا رکھتا ہوں
جس نے کانٹے مری راہوں میں بچھائے برسوں

یاد ان کو نہ رہا کوئی بھی وعدہ خادم
ہم نے رشتوں کی طرح قول نبھائے برسوں

خادم حسین خاکسار

Comments