Posts

Showing posts from March, 2020

دل کی آواز سماعت کرلی

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا

چاروں طرف کھُلیا ہے گلزار رنگ درس کا

قاتل کی سازشوں میں وفا ڈھونڈتے رہے

جب اس زلف کی بات چلی

وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگادوں گا

گھر کی دہلیز سے بازار میں مت آ جانا

اب احمق داناؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

مل کر جدا ہوئے تو نہ سویا کریں گے ہم

کسی خیال کی شبنم سے نم نہیں ہوتا

یعنی یہ تیرا ہجر بھی اتنا کما لیا گیا

دینے لگا ہے خواب میں مجھ کو دکھائی کیا

یہ جو ہم تجھ سے تری بات کرنا چاہتے ہیں

زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

بڑھیا سگریٹ

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے

خود کو ہر روز کھولتا ہوں میں

ہر ایک بندہ جب ایسے عالم میں مصلحت کا شکار ہوگا

مفت کے سنسنی فروش ہیں ہم

ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی​

محبت سے دل کو میں آگاہ کر لوں

میں جس جگہ ہوں مجھ کو وہاں سے بلا تو دے​

مجھے حضور کچھ ایسا گمان پڑتا ہے ​

حبس شب ہو تو اجالے بھی ترے شہر سے آئیں

دل بستگی شوق کے سامان بندھے ہیں

سیل گریہ کا سینے سے رشتہ بہت

نہ دوائیں پُراثر ہیں نہ دُعائیں، کیا بتائیں

یہ کون آیا شبستاں کے خواب پہنے ہوئے

یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا

فریاد بھی ہے سوئے ادب اپنے شہر میں

سناوے مجکوں گر کئی مہربانی سوں سلام اس کا

پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو

روٹھ کر نکلا تو وہ اس سمت آیا بھی نہیں

یہ حکم ہے کہ غمِ کشتگاں نہ رکھا جائے

رات میں دن ملایئے

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا

دنیا کے جور پر نہ ترے التفات پر ​

آنکھ لگتے ہی مری نیند اڑانے لگ جائیں

شب وصال سے آگے ترے خیال سے آگے

بھلا ہے گر ہوس عشق بو الہوس نہ کرے

اسے یاروں نے میرا رقعہ جا کر دے دیا ہوتا

ڈوب کر بھی نہ پڑا فرق گراں جانی میں