کچھ جذبے اورجنون لیے مایوس وملول سے رہتے ہیں

کچھ جذبے اورجنون لیے مایوس وملول سے رہتے ہیں 
ہم انسانوں کے جنگل میں اک شاخ ببول سے رہتے ہیں

یوں تو بنجر ہے پہلے سے لیکن اس دل کی دھرتی پر 
کچھ خوشبو عہد گزشتہ کی کچھ چہرے پھول سے رہتے ہیں 

ہم درویشانِ عہد کہن ہم سرمستانِ بادہ فن!
کبھی رکھتے ہیں ربط بہاراں سے کبھی رشتے دھول سے رہتے ہیں

صورت بھی نہیں اچھی اپنی سیرت بھی نہیں اچھی اپنی 
سرِ کوئے نگاراں ہم لیکن پھر بھی مقبول سے رہتے ہیں



ہر ماہ کٹوتی خرچے میں ہر سال اضافہ اجرت میں 
ہر روز بخیلی محنت میں کچھ لوگ اصول سے رہتے ہیں

سرسید کو محدود کیے اک چھوٹی سی کالونی ہے 
جہاں کابک نمامکانوں میں چہرے مجہول سے رہتے ہیں
اسعد بدایونی

Comments