آنکھ لگتے ہی مری نیند اڑانے لگ جائیں

آنکھ لگتے ہی مِری نیند اڑانے لگ جائیں
خواب چڑیوں کی طرح شور مچانے لگ جائیں
ہم کہ گہرائی میں بہتے ہیں سمندر کی طرح
جانے کس وقت تِری سطح پہ آنے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
اسی امید پہ گزرے کئی موسم خالی
شاید اس بار شجر بُور اٹھانے لگ جائیں
دیکھ اے حسنِ فراواں! یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں
کارِ دنیا بھی عجب ہے کہ مِرے گھر والے
دن نکلتے ہی مِری خیر منانے لگ جائیں

عباس تابش

Comments