اسے یاروں نے میرا رقعہ جا کر دے دیا ہوتا

اسے یاروں نے میرا رقعہ جا کر دے دیا ہوتا
کھُلا گر دے نہ سکتے تھے چھپا کر دے دیا ہوتا



 بگڑ جاتا تِرا کیا، سرخرو میں سب میں ہو جاتا
مجھے اک پان تو تُو نے بنا کر دے دیا ہوتا

نہ ہوتے مجھ سے تم سینہ بہ سینہ ہو کے ہمبستر
پر اک بوسہ تو منہ سے منہ بھڑا کر دے دیا ہوتا
گوارا شربتِ دیدار دینا گر نہ تھا تجھ کو
بلا سے زہر ہی مجھ کو پلا کر دے دیا ہوتا
بھروسے میں جوابِ خط کے مارا ہاۓ کیوں مجھ کو
جوابِ صاف ہی قاصد نے آ کر دے دیا ہوتا
لگاتا خضر کیوں آبِ بقا کو منہ سے اے ساقی
جو تُو نے جامِ مے منہ سے لگا کر دے دیا ہوتا
ظفرؔ لے کر تمہارا دل وہ کاہے کو مکر جاتا
اگر تم نے اسے سب کو جتا کر دے دیا ہوتا

بہادر شاہ ظفر

Comments