اب احمق داناؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

اب احمق داناؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
سو ہم صرف خلاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

جانے کیاافتاد پڑے گی اب کے بستی پر
دھوپ کے لشکر چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

جن کے ترکش تیرِ ستم سے خالی ہوتے ہیں
وہ بھی کرم فرماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

ہم نے اپنادستِ سوال قلم کر ڈالا ہے
ہم سے شاہ گداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

ہر دل میں دریاؤں کی طغیانی خوابیدہ
لب لیکن صحراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

کبھی کبھی جب شام کوسورج سونے جاتاہے
جنگل خواب سراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
اسعد بدایونی

Comments