یعنی یہ تیرا ہجر بھی اتنا کما لیا گیا

یعنی یہ تیرا ہجر بھی، اتنا کما لیا گیا
سینے میں بھر لیا گیا، سر پہ اٹھا لیا گیا
دشت ہی دشت تھا وہاں دیوار و در تو تھے نہیں
جس کو جہاں جگہ ملی، مسکن بنا لیا گیا

اپنا تو سب حسابِ جاں، دل پہ رقم ہے آج تک
جو بھی کہا سنا گیا، جو بھی دیا، لیا، گیا
جن پر خدا کا غیض تھا، اکثر زمین پر رہے
جن کو رضا ملی انہیں، واپس بلا لیا گیا
جتنی بھی کائنات ہے یہ وه نہیں ہے، جو یہ ہے
اس میں بھی ایک راز تھا، جس کو چھپا لیا گیا
جن کا کوئی نہیں یہاں، ان کا یہاں کوئی تو ہو
ہر اجنبی کے نام پر اک، اک، دیا لیا گیا
عجز و نیاز کے سبب، انوؔر یہ رفعتیں ملیں
جب بھی کوئی خوشی ملی، سر کو جھکا لیا گیا

صغیر انور

Comments