یہ مرحلہ ہے طلب کا نصیب کا نہیں ہے

یہ مرحلہ ہے طلب کا نصیب کا نہیں ہے 
وگرنہ کس پہ در مصطفی کھلا نہیں ہے



 نظر سے دل کی مسافت پہ مدینہ مجھے 
کسی بھی دشت نوردی کا فائدہ نہیں ہے
اب اسے بڑھ کے تبلیغ کیا ہو محبت کی 
تیرے عدو کو بھی تجھ سے کوئی گلہ نہیں ہے
یہ راز صرف ثنا خوان جانتے ہیں تیرے 
سخن کو بھی تیری توصیف کو فنا نہیں ہے
ابھی وہ باب کرم مجھ پہ وا ہوا ہی تھا 
میں یہ بھی بھول گیا مرے پاس کیا نہیں ہے
ترے سبب سے مرے راستے میں رہتی ہے 
وہ ایک ذات جس سے مرا سامنا نہیں ہے
اظہرؔ فراغ ⁦

Comments