اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا

اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا
تم سے بچھڑا تو دربدر ہی رہا
آنکھ کچھ منظروں پہ رکتی رہی
دل تو آمادۂ سفر ہی رہا
ایک عالم کی فکر تھی جس کو
میری حالت سے بے خبر ہی رہا
خوف سے کانپ کانپ جاتا تھا
زرد پتہ جو شاخ پر ہی رہا
دوسروں کے جو عیب گنتا تھا
حیف, تاعمر بے ہنر ہی رہا
زیست صد جشنِ آرزو ٹھہری
یہ فسانہ بھی مختصر ہی رہا
وسعتِ کائنات میں اخترؔ
جلتا بجھتا سا اک شرر ہی رہا​

اختر ضیائی

Comments