ہمارا اور عالم ہم کو اس عالم سے کیا مطلب​

ہمارا اور عالم ہم کو اس عالم سے کیا مطلب​
کسی سے کیا غرض ہم کو کسی کو ہم سے کیا مطلب​



 تماشے سب جہاں کے ہم نے دیکھے ساغرِ مے میں​
قسم آنکھوں کی ساقی ہم کو جامِ جَم سے کیا مطلب​

جراحت میں مِرے کچھ نون مرچیں پیس کر بھر دو​
کہ ہے یہ زخم عاشق کا اسے مرہم سے کیا مطلب​
عرق آلودہ عارض تیرے دیکھوں اے گلستاں رو​
مجھے کیا کام گلشن سے گل و شبنم سے کیا مطلب​
سیہ بختی سے اپنی اس بلا کے پیچ میں آیا​
وگرنہ دل کو میرے زلفِ خم در خم سے کیا مطلب​
جو یہ سمجھے کہ ملتا ہے وہی جو کچھ ہے قسمت میں​
رہا ان کو ظفؔر پھر فکرِ بیش و کم سے کیا مطلب​

بہادر شاہ ظفر

Comments