پیاسی راتیں کاٹی ہیں دن بھی گزارے الجھن کے

پیاسی راتیں کاٹی ہیں دن بھی گزارے الجھن کے
جیٹھ سے ہم نے ہار نہ مانی، گھر نہ گئے ہم ساون کے





 چارہ گر بھی شاید اپنے زخموں سے گھبراتے ہیں
میری غزل پر کوئ نہ جھُوما، قصے تھے گھر آنگن کے

ان سے پوچھو فصلِ جنوں کی قیمت کیسے دیتے ہیں
بادل بن کر ناچ رہے ہیں ٹکڑے جن کے دامن کے
مجھ کو بھی اس بادِ صبا سے ملنے کا اک موقع دو
میرے لیے بھی شاید کچھ پیغام آۓ ہوں گلشن کے

راہی معصوم رضا

Comments