دریچے طاقچے سننے کا لطف اٹھاتے ہوئے

دریچے طاقچے، سننے کالطف اٹھاتے ہوئے
دئیے کے ہونٹ کوئی داستاں سناتے ہوئے

بدن میں شامِ زمستاں طلوع ہوتی ہوئی
گداز گرم پرندے گھروں کوجاتے ہوئے

ہر اک مقام پر نادیدہ دشمنوں کاخوف
تمام عمر کٹی دست و پا بچاتے ہوئے

ہمارے دل میں عجب ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہوئی
ہم اپنے گھر کو مگر رات دن سجاتے ہوئے

ہم اک طلسم کا در کھولنے گئے تھے مگر
پلٹ کے آئے فقط حیرتیں بڑھاتے ہوئے

زمین اپنے تقاضوں کو تیز کرتی ہوئی
فضائے یاد میں کچھ نام جھلملاتے ہوئے

سکوت، ساحل دریا پہ آنکھ ملتا ہوا
بھنور کے ہاتھ کئی کشتیاں تراتے ہوئے
اسعد بدایونی

Comments