یہ سوچ کر ترے دل سے ہنسی خوشی نکلے

یہ سوچ کر ترے دل سے ہنسی خوشی نکلے 
کسی بہانے سہی ' آنکھ سے نمی نکلے
پکڑ میں آ گئے پرہیز گار (شعبدہ باز )
گناہ گار تو ہر جرم سے بری نکلے
پڑھا رہے ہیں مجھے وہ رموز ِ دربدری 
جو اپنے کمرے سے باہر نہيں کبھی نکلے



 بس اِک وبائی مرض نے اُڑا کے رکھ دیے ہیں 
جو آہنی بنے پھرتے تھے ' کاغذی نکلے
عمران عامی

Comments