نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا

نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا
میں کوئی ٹوٹا پھوٹا آشیانہ ڈھونڈ ہی لیتا
خدا کی سرزمیں پر کچھ نہ کچھ تو مل ہی جانا تھا
کوئی بھوکا پرندہ آب و دانہ ڈھونڈ ہی لیتا
اگر تم صاف کہہ دیتے کہ اس گھر سے نکل جاؤ
تو میں اپنے لئے  کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا



 بھرم رہتا تمہاری اور میری نیک نامی کا
جس کے لئے میں کوئی شانہ ڈھونڈ ہی لیتا
سفر تو کاٹنا ہی تھا کسی صورت مجھے آخر
کوئی چہرہ، کوئی منظر سہانہ ڈھونڈ ہی لیتا
بھرے بازار میں تحلیل جیسے ہو گیا کوئی
وگرنہ، آج اک رشتہ پرانہ ڈھونڈ ہی لیتا

اعتبار ساجد

Comments