ہجر کی شاعری

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
مرزا غالب 
.....
یوں گزرتے ہیں ہجر کے لمحے
جیسے وہ بات کرتے جاتے ہیں
مہیش چندر نقش 
.....
بڑی طویل ہے محشرؔ کسی کے ہجر کی بات
کوئی غزل ہی سناؤ کہ نیند آ جائے
محشر عنایتی 
.....
جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے
کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے
شہریار 
....
جو غزل آج ترے ہجر میں لکھی ہے وہ کل
کیا خبر اہل محبت کا ترانہ بن جائے
احمد فراز
خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں
وہ دن جو ہم نے تیرے ہجر میں گزارے تھے
احمد ندیم قاسمی
۔۔۔
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
پروین شاکر
......
اس سنگ دل کے ہجر میں چشموں کو اپنے آہ
مانند آبشار کیا ہم نے کیا کیا
انشاءؔ اللہ خاں
......
وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا
اختر شیرانی
.....
وہ بھلا کیسے بتائے کہ غم ہجر ہے کیا
جس کو آغوش محبت کبھی حاصل نہ ہوا
حبیب احمد صدیقی
......
آج نہ جانے راز یہ کیا ہے
ہجر کی رات اور اتنی روشن
جگر مراد آبادی 
......
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
امیر خسرو 
.....
ہر عشق کے منظر میں تھا اک ہجر کا منظر
اک وصل کا منظر کسی منظر میں نہیں تھا
عقیل عباس جعفری
.....
ڈر گیا ہے جی کچھ ایسا ہجر سے
تم جو پہلو سے اٹھے دل ہل گیا
جلیلؔ مانک پوری
....
میں تیرے ہجر میں جینے سے ہو گیا تھا اداس
پہ گرم جوشی سے کیا کیا منایا اشک مرا
باقر آگاہ ویلوری
.....
ہجر میں اتنا خسارہ تو نہیں ہو سکتا
ایک ہی عشق دوبارہ تو نہیں ہو سکتا
افضل گوہر راؤ 
.....
ہجر میں مسکرائے جا دل میں اسے تلاش کر
ناز ستم اٹھائے جا راز ستم نہ فاش کر
فانی بدایونی
....
تجھ ہجر کی اگن کوں بوجھانے اے سنگ دل
کوئی آب زن رفیق بجز چشم تر نہیں
داؤد اورنگ آبادی
......
یہی دنیا تھی مگر آج بھی یوں لگتا ہے
جیسے کاٹی ہوں ترے ہجر کی راتیں کہیں اور
احمد مشتاق
......
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
اکبر الہ آبادی
.....
بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی
فراق گورکھپوری
....
بہ پاس دل جسے اپنے لبوں سے بھی چھپایا تھا
مرا وہ راز تیرے ہجر نے پہنچا دیا سب تک
قتیل شفائی
...
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
ابن انشاؔ 
.....
ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں
جون ایلیا
....
ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں
احمد مشتاق 
.....
ہجر کی رات یہ ہر ڈوبتے تارے نے کہا
ہم نہ کہتے تھے نہ آئیں گے وہ آئے تو نہیں
علی جواد زیدی 
....
ہجر و وصال چراغ ہیں دونوں تنہائی کے طاقوں میں
اکثر دونوں گل رہتے ہیں اور جلا کرتا ہوں میں
فرحت احساس 
......
عشق پر فائز ہوں اوروں کی طرح لیکن مجھے
وصل کا لپکا نہیں ہے ہجر سے وحشت نہیں
غلام حسین ساجد 
....
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
جگر مراد آبادی
.....
توڑا ہے دم ابھی ابھی بیمار ہجر نے
آئے مگر حضور کو تاخیر ہو گئی
جگت موہن لال رواںؔ 
......
تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو
جون ایلیا 
.....
تمہارے ہجر میں کیوں زندگی نہ مشکل ہو
تمہیں جگر ہو تمہیں جان ہو تمہیں دل ہو
افسر الہ آبادی
......
وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو
مرغوب علی

شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں
پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری
فانی بدایونی
.....
ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی
ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے
جلال الدین اکبر
.....
اسے خبر تھی کہ ہم وصال اور ہجر اک ساتھ چاہتے ہیں
تو اس نے آدھا اجاڑ رکھا ہے اور آدھا بنا دیا ہے
فرحت احساس 
...... 
دیکھ کر طول شب ہجر دعا کرتا ہوں
وصل کے روز سے بھی عمر مری کم ہو جائے
مرزارضا برق ؔ 
....
دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو
ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے
امیر مینائی 
.....
فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے
احمد فراز 
.....
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
ثاقب لکھنوی 
....
ہجر میں ملنے شب ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے
....
مخدومؔ محی الدین 
.....
ہجر میں مضطرب سا ہو ہو کے
چار سو دیکھتا ہوں رو رو کے
جرأت قلندر بخش
.....
عشق میں نسبت نہیں بلبل کو پروانے کے ساتھ
وصل میں وہ جان دے یہ ہجر میں جیتی رہے
جعفر علی خاں ذکی
....
کہہ دو یہ کوہ کن سے کہ مرنا نہیں کمال
مر مر کے ہجر یار میں جینا کمال ہے
جلیلؔ مانک پوری 
.....
کسی کے ہجر میں جینا محال ہو گیا ہے
کسے بتائیں ہمارا جو حال ہو گیا ہے
اجمل سراج 
....
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
احمد فراز 
...
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
حفیظ جالندھری

Comments